’’تنوع میں اتحاد‘‘ ہے
اگر ہم کبھی مظاہرِ فطرت کا بغور جائزہ لیں تواس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قدرت کی رنگا رنگی کی بنیاد تنوع پر ہے۔ زمین پر بکھرے پتھرہوں یا جنگلی حیات حتیٰ کہ ایک درخت پر اگتے ہوئے پتے بھی ایک طرح کے نہیں ہوتے بلکہ مختلف شکل و صورت رکھتے ہیں۔ یہی گونا گونی انسانوں میں بھی نظر آتی ہے۔ اربوں انسانوں میں سے کوئی دو بھی ایک جیسے نہیں ہیں اور یہ تنوع صرف آج کے لوگوں میں ہی نہیں بلکہ ہم سے پہلے ہمارے آبائو اجداد بھی ہم سے مختلف تھے۔ بچے اپنے والدین سے مختلف ہوتے ہیں۔ دنیا میں موجود ہر فرد ایک انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر فرد اپنی شناخت کی وجہ سے ایک جداگانہ حیثیت کا مالک ہے۔ قدرت کے مظاہر سے انسانوں تک نظر آنیوالا یہ تنوع فطرت کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ یہ تنوع کوئی مسئلہ نہیں بلکہ قدرت کا ایک تحفہ ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے اس تنوع میں ایک اخوت پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ اخوت ہرگز یکسانیت نہیں۔ یکسانیت کی بنیاد تقلید پر ہے جبکہ تخلیقی قوت کا اظہارتقلید کے ذریعے نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت صرف انسانی تخلیقات میں ہی نہیں بلکہ قدرت کے مناظر میں بھی واضح ہوتی ہے۔ انسانی تنوع زندگی کے ہر پہلو مثلاً جنس، نسل، مذہب اور زبان میں نظر آتا ہے لیکن ایک چیز ایسی ہے جو اپنے طور پر قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہر انسان کا احترام اسکے بنیادی حقوق میں سے ہی اور ان حقوق کا آغاز زندہ رہنے کے حق سے ہوتا ہے۔ یہ مساوات ایک کائناتی اصول ہے جس کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی شاہی خاندان سے ہو یا وہ بے گھر ہو۔ کوئی چاہے پاکستان میں پیدا ہوا ہو یا امریکہ میں، سلواکیہ کا شہری ہو یا افریقہ کے کسی ملک کا، ہر انسان برابر احترام کا حقدار ہے۔ اس خیال سے اختلاف صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی فرق مثلاً نسل، مذہب یا قومیت کو برتری تصور کرتے ہیں۔ برتری کا یہ تصور دنیا میں کئی سانحات اور علاقائی اور عالمی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ اس طرح کے خیالات معاشرے میں مصنوعی تقسیم اور تعصبات کو جنم دیتے ہیں جس سے برتری کی سیاست کا آغاز ہوتا ہے اور یوں لوگوں کے ذریعے حکومت کی بجائے لوگوں پر حکومت شروع ہو جاتی ہے۔ تعصبات اور سبقت کے ایسے نظریئے ہی ناانصافی، تشدد اور تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ یورپ میں بیسویں صدی کو ایک آمرانہ اور خونی دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے سانحات اور جنگوں سے بچائو کا واحد طریقہ ہر انسان کیلئے امن، انصاف اور احترام کی ترویج ہے۔ یہی وجہ ہے کی یورپ گزشتہ ساٹھ سال سے ایک یونین کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس یونین کا اصول ’’تنوع میں اتحاد‘‘ ہے۔ آج کے دور میں اس امر کی ضرورت اور بھی زیادہ کہ ہم اس تنوع کے ساتھ ایک بہتر زندگی گزارنا سیکھ سکیں۔ زندگی گزارنا، صرف دنیا مٰیں موجود ہونے سے کہیں زیادہ معنی رکھتا ہے۔ بطور یورپی یونین کے خصوصی نمائندہ برائے آزادی مذہب و عقائد، میں پاکستان کے دورے کا منتظر ہوں جو کہ یورپی یونین کا ایک اہم پارٹنر ملک ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ مذہبی تنوع کا احترام اور برداشت اور مکالمے کا کلچر کسی بھی ملک میں امن، سماجی انصاف، اتحاد اور خوشحالی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ چاہے ہمارا تعلق اکثریت سے ہو یا اقلیت سے، ہم کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں، ہم سب آزاد ہیں اور ایک جیسے احترام کے حقدار بھی۔ مذہب اور عقائد کی آزادی سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی ہے۔ اور یہ بنیادی شخصی آزادی ہماری عزتِ نفس کا اظہار ہے۔ مذہب اور عقائد کی آزادی کسی بھی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اگر اس آزادی پر قدغن لگ جائے تو دیگر تمام سماجی اور سیاسی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں اور اگر اس آزادی کا احترام ہونے لگے تو باقی تمام انسانی حقوق کے احترام کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ مذہب اور عقائد کی آزادی کا فائدہ کسی ایک مذہب کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے آمرانہ نظام کا آغاز ایک صدی پہلے 1917کے بالشویک انقلاب سے ہوا۔ مشرقی اور وسطی یورپ میں پائے جانے والے مذاہب اس انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جبر و استبداد کو تو سہار گئے اور آج بھی موجود ہیں مگر طبقاتی لڑائی اور تقسیم، نظریاتی تلقین، جبری جلاوطنیوں اور لاکھوں لوگوں کی قید نے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا۔ معاشرے کے جامع ارتقا، امن، انصاف اور گڈ گورننس کے لئے مذہبی آزادی بہت اہمیت رکھتی ہے اور ایسا معاشرہ ہی خوشحال ہو پاتا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والی نا انصافی، پوری دنیا میں انصاف کیلئے خطرہ ہوتی ہے۔ ایک بہتر دنیا کی تخلیق کیلئے احترامِِ انسانی ایک بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ دورِِِ حاضر میں باطل کئی جہتیں رکھتا ہے۔ لیکن ان میں سب سے نمایاں اور بہت زیادہ پھیلی ہوئی جہتیں خوف، جہالت اور بے حسی ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم ان برائیوں کے خاتمے کیلئے ہمہ تن کوشاں رہیں۔ ان برائیوں کے مقابلے کیلئے جرات، احساسِ ذمہ داری اور تعلیم ضروری ہیں۔ لازم ہے کہ ہم کمزور طبقات کے ساتھ کھڑے ہوں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ ہم سب یکساں احترام کے حقدار ہیں۔ ہمیں اپنی جداگانہ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بٹوارے کی سیاست سے آگے بڑھنے اور ایک اخلاقی طور پر درست سمت میں سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً ایسی کوششیں بارآور ہوں گی اور ہم اس دنیا کو ایک بہتر حالت میں لانے کے قابل ہو جائیں گے۔